’’پکانا‘‘ سیکھئے ۔۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

کسی بھی کام Ú©Ùˆ کرنے Ú©Û’ کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ آپ چاہیں تو کسی بھی کام Ú©Ùˆ اُس Ú©ÛŒ تکمیل Ú©Û’ لیے مطلوب وقت سے Ú©Ù… وقت میں بھی کرسکتے ہیں۔ ہاں‘ نتیجے Ú©ÛŒ ذمہ داری آپ پر عائد ہوگی۔ کسی بھی چیز Ú©Ùˆ Ù¾Ú©Ù†Û’ Ú©Û’ لیے جتنا وقت درکار ہے اُس سے خاصے Ú©Ù… وقت میں اُسے بہت تیز آنچ میں پکائیے تو لذت جاتی رہتی ہے اور اگر معمول Ú©ÛŒ آنچ پر پہلے اتار لیجیے تو ہانڈی Ú©Ú†ÛŒ رہ جاتی ہے۔ زندگی کا ہر معاملہ ایسی ہی کیفیت کا Ø+امل ہے۔ کسی بھی کام Ú©Ùˆ کرنے کا ایک منطقی دورانیہ ہوتا ہے۔ اگر زیادہ تیزی دکھائی جائے تو نتیجہ یعنی معیار متاثر ہوتا ہے۔
Ú©Ù… ہی لوگ اس Ø+قیقت Ú©Ùˆ سمجھ پاتے ہیں کہ ہر کام اپنے منطقی دورانیے Ú©ÛŒ Ø+دود میں مکمل کیا جانا چاہیے۔ کسی کام Ú©Ùˆ خواہ مخواہ گھسیٹتے رہیے تو اُس کا معیار متاثر ہوتا ہے اور کشش بھی جاتی رہتی ہے۔ تقدیم Ùˆ تاخیر سے پیدا ہونے والے فرق Ú©Ùˆ سمجھنا لازم ہے۔ اپنے ماØ+ول پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ جو لوگ کسی بھی کام Ú©Ùˆ بہت تیزی سے کرنے Ú©ÛŒ کوشش کرتے ہیں وہ منہ Ú©Û’ بل گرتے ہیں۔ تیزی دکھانے Ú©ÛŒ کوشش صرف اُنہیں نقصان سے دوچار نہیں کرتی بلکہ دوسروں Ú©Ùˆ بھی الجھنوں سے دوچار کرتی ہے۔ مہدی Ø+سن سے کون واقف نہیں؟ نزم Ùˆ نازک گائیکی میں ان کا کوئی ثانی پیدا نہیں ہوا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اب دور تک کوئی اُن سا پیدا یا تیار ہوتا بھی دکھائی نہیں دیتا۔ مہدی Ø+سن Ù†Û’ چھوٹی عمر سے غیر معمولی تربیت پائی۔ Ú¯Ù„Û’ Ú©ÛŒ مٹھاس اللہ Ú©ÛŒ دین ہوتی ہے مگر اُسے بہتر بنانا اور فن Ú©Û’ اسرار Ùˆ رموز سیکھ کر خود Ú©Ùˆ دنیا Ú©Û’ سامنے پیش کرنا انسان کا کام ہے۔ Ú©Ù… ہی لوگ گلوکاری کا Ø+Ù‚ ادا کر پاتے ہیں۔ مہدی Ø+سن Ú©Ùˆ شہنشاہِ غزل یونہی نہیں کہا جاتا۔ وہ اس خطاب Ú©Û’ سو فیصد Ø+قدار ہیں۔ ان Ú©Û’ سیکڑوں آئٹم آج بھی ان Ú©Û’ فن Ú©ÛŒ پختگی کا ثبوت بن کر ہمارے سامنے ہیں۔
گزشتہ دنوں یو ٹیوب پر سہیل رعناؔ کا ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں انہوں Ù†Û’ پاکستان Ú©ÛŒ فلم انڈسٹری میں صفِ اول Ú©Û’ موسیقار Ú©ÛŒ Ø+یثیت سے گزارے ہوئے زمانے Ú©ÛŒ یادیں تازہ Ú©ÛŒ ہیں۔ بات ہو رہی تھی فن سے خلوص‘ Ù„Ú¯Ù† اور ولولے کی۔ سہیل رعناؔ غیر معمولی صلاØ+یت Ú©Û’ Ø+امل موسیقار تھے۔ ان Ú©Û’ فن پارے آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ ان Ú©Û’ مقبول ترین گانوں میں مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو‘ اِک نئے موڑ پہ Ù„Û’ آئے ہیں Ø+الات مجھے‘ یہ وفاؤں کا دیا آپ Ù†Û’ انعام مجھے‘ تمہیں کیسے بتادوں تم مِری منزل ہو‘ اُن Ú©ÛŒ نظروں سے Ù…Ø+بت کا جو پیغام ملا‘ ہاں اِسی موڑ پر‘ اکیلے نہ جانا‘ بھولی ہوئی ہوں داستاں‘ دنیا والوں تمہاری دنیا میں‘ ہے بے قرار تمنا ذرا ٹھہر جاؤ‘ آخری بار مل رہے ہیں وغیرہ نمایاں ہیں۔ سہیل رعناؔ کہتے ہیں کہ ÙˆØ+ید مراد Ù†Û’ پروڈیوسر Ú©ÛŒ Ø+یثیت سے ''اØ+سان‘‘ بنائی تو اس میں اس کا ایک گیت گوانے Ú©Û’ لیے مہدی Ø+سن Ú©Ùˆ بلایا گیا۔ شہنشاہِ غزل آئے تو سہیل رعناؔ Ù†Û’ انہیں گانا یاد کرایا۔ وہ بتاتے ہیں ''مہدی Ø+سن Ù†Û’ گانے Ú©ÛŒ دُھن تمام ممکنہ فنی باریکیوں Ú©Û’ ساتھ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں سمجھ Ù„ÛŒ اور یاد بھی کرلی۔ میں Ù†Û’ کہا چلیے خاں صاØ+ب‘ گانا ریکارڈ کرلیتے ہیں۔ خاں صاØ+ب Ù†Û’ یہ سُنا تو مسکراتے ہوئے کہا کہ ابھی کہاں‘ میں دو تین دن 'پکا تو لوں‘ اس گیت Ú©ÙˆÛ” اس Ú©Û’ بعدریکارڈنگ کریں گے۔‘‘ اُن Ú©Û’ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ پہلے گیت میں اُتر جاؤں‘ اسے اپنے وجود میں اُتار لوں۔ اس Ú©Û’ بعد ہی دنیا Ú©Û’ سامنے پیش کریں Ú¯Û’Û”
یہ تھا فن سے Ù„Ú¯Ù† کا عالم۔ ہر شخص اپنے Ø+صے کا کام پوری دیانت Ú©Û’ ساتھ کرتا تھا۔ سہیل رعناؔ Ù†Û’ بتایا ''دو تین دن تک خوب مشق کرنے Ú©Û’ بعد جب مہدی Ø+سن صاØ+ب Ù†Û’ گانا ریکارڈ کرایا تو دنیا Ú©Ùˆ اُن Ú©ÛŒ طرف سے ایک اور شاہکار ملا۔‘‘ یہ تذکرہ ہے ''اک نئے موڑ پہ Ù„Û’ آئے ہیں Ø+الات مجھے‘‘ کا۔ یہ گیت آج بھی روزِ اول Ú©ÛŒ طرØ+ تر Ùˆ تازہ ہے۔ ایک دور تھا کہ پاکستان میں ہر شعبہ پیش رفت کا Ø+امل تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ سب Ú©Ùˆ اپنے کام سے عشق تھا۔ ہر شخص چاہتا تھا کہ Ú©Ú†Ú¾ کرکے دکھائے‘ لوگ سراہیں اور صلاØ+یتوں کا لوہا مانیں۔ کسی بھی کام Ú©Ùˆ آدھا کچا‘ آدھا پکا دنیا Ú©Û’ سامنے لانے سے بات نہیں بنتی۔ ایسی Ø+الت میں کام کرنے والے Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ لطف آتا ہے نہ اُنہیں Ú©Ú†Ú¾ راØ+ت Ù…Ø+سوس ہوتی ہے جن Ú©Û’ لیے کام کیا گیا ہو۔ کسی بھی شعبے میں جب سبھی لوگ اپنے Ø+صے کا کام پوری دیانت‘ خلوص‘ Ù„Ú¯Ù† اور ولولے Ú©Û’ ساتھ کرتے ہیں تب دنیا Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ ملتا ہے‘ پیش رفت ممکن ہو پاتی ہے۔ فی زمانہ عجلت پسندی مزاج کا Ø+صہ ہوکر رہ گئی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ جو Ú©Ú†Ú¾ بھی کرنا ہے تیزی سے کرلیا جائے۔ کہا جاسکتا ہے کہ لوگ معیار پر مقدار Ú©Ùˆ ترجیØ+ دینے Ù„Ú¯Û’ ہیں۔ Ø+قیقت یہ ہے کہ بعض معاملات میں معیار دکھائی دیتا ہے نہ مقدار ہی نظر آتی ہے۔ سوچے سمجھے بغیر کام کرنے Ú©ÛŒ روش عام ہوتی جارہی ہے۔ لوگ اپنے Ø+صے کا کام پوری دیانت‘ خلوص اور Ù„Ú¯Ù† سے کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لیتے۔ کام Ú©Ùˆ ÚˆÚ¾Ù†Ú¯ سے مکمل کرنے Ú©Û’ بجائے Ù…Ø+ض ٹالنے Ú©Û’ سے انداز سے کرنے ہی Ú©Ùˆ سب Ú©Ú†Ú¾ سمجھ لیا گیا ہے۔ مال اور نام دونوں ہی کمانے ہیں مگر Ù…Ø+نت نہیں کرنی۔ جب کام سے دلچسپی کا یہ عالم ہو تو کام کیا خاک ہوگا۔
پاکستان Ú©Û’ قیام Ú©Û’ ابتدائی زمانے میں لوگ ہر معاملے میں دیانت دار بھی تھے اور دلچسپی بھی لیتے تھے۔ عام آدمی بھی Ú©Ù… Ùˆ بیش تمام معاملات میں معیار Ú©ÛŒ بلندی کا طالب ہوتا تھا۔ فلم وہی چلتی تھی جو واقعی اچھی ہوتی تھی‘ کتاب وہی Ù¾Ú‘Ú¾ÛŒ جاتی تھی جس میں Ú©Ú†Ú¾ ہوتا تھا‘ گانے وہی پسند کیے جاتے تھے جو سریلے ہوں۔ کھیلوں میں لوگوں Ú©Ùˆ لطف اسی وقت Ù…Ø+سوس ہوتا تھا جب کھلاڑی واقعی اچھا کھیل پیش کر رہے ہوتے تھے۔ کوئی ایک بھی شعبہ ایسا نہ تھا جس میں لوگ Ù…Ø+نت کرنے سے کتراتے ہوں‘ اپنا Ø+Ù‚ ادا کرنے سے گریز کرتے ہوں۔ رفتہ رفتہ مقدار Ù†Û’ معیار Ú©ÛŒ جگہ Ù„Û’ لی۔ اور اب سات عشروں Ú©Û’ بعد یہ Ø+ال ہے کہ اپنے کام Ú©Ùˆ مہدی Ø+سن Ú©ÛŒ طرØ+ پکانے پر آمادہ اور معیار کا خیال رکھنے والے خال خال ہیں۔ جو الٹا سیدھا آتا ہے وہ انہماک Ú©Û’ ساتھ Ú©ÛŒ گئی تیاری Ú©Û’ بغیر دنیا Ú©Û’ سامنے رکھنے Ú©ÛŒ روش عام ہے۔ آج ہر شعبہ بھیڑ چال کا شکار ہے۔ پاکستانی معاشرے Ú©ÛŒ مجموعی سوچ اور اجتماعی روش یہ ہے کہ کوئی بھی کام جیسے تیسے مکمل کرکے جان چھڑالی جائے۔ اپنے کام سے Ù…Ø+بت کرنے اور Ù…Ø+نت Ú©Û’ ذریعے صلاØ+یتوں Ú©Ùˆ اØ+سن طریقے سے بروئے کار لانے والے برائے نام ہیں۔ ''کام چلاؤ‘‘ ذہنیت عام ہے۔ ایسے میں عمومی سطØ+ پر زندگی کا معیار بلند ہو تو کیسے ہو؟ یہی سبب ہے کہ بیشتر شعبوں میں شاہکار اب بن نہیں پارہے۔
آج پھر وہی سوچ اپنانے Ú©ÛŒ ضرورت ہے کہ جب تک کسی بھی کام Ú©ÛŒ پوری تیاری نہ ہو پائے تب تک وہ کیا ہی نہ جائے۔ عمومی زندگی ہو یا فنونِ لطیفہ کا شعبہ‘ ہر معاملے میں غیر معمولی Ù„Ú¯Ù† اور ولولے ہی سے وہ نتائج پیدا ہوتے ہیں جو اپنی طرف تیزی سے متوجہ کرتے ہیں۔ دنیا بہت آگے جاچکی ہے۔ ہم اب تک بے عملی اور عدم توجہ Ú©Û’ Ú†Ù†Ú¯Ù„ میں ہیں۔ کام سے Ù…Ø+بت کرنے والوں Ú©ÛŒ تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ Ù…Ø+نت سے جی چرانے والوں کا بول بالا ہے۔ یہی سبب ہے کہ پورا معاشرہ بند Ú¯Ù„ÛŒ میں کھڑا ہے۔ کسی بھی شعبے میں غیر معمولی کارکردگی Ú©ÛŒ راہ ہموار ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
ناقص معیار Ú©ÛŒ بند Ú¯Ù„ÛŒ سے نکلنے Ú©ÛŒ ایک ہی صورت ہے ... یہ کہ زیادہ سے زیادہ Ù…Ø+نت Ú©ÛŒ جائے‘ کام میں بھرپور دلچسپی Ù„ÛŒ جائے اور Ú©Ú†Ú¾ بھی کرتے وقت یہ سوچا جائے کہ لوگ کیا ریسپانس دیں Ú¯Û’Û” ہر شعبہ ہم سے پورا خلوص چاہتا ہے تاکہ کام کرنے کا لطف بھی آئے اور دنیا Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ ملے بھی۔ مہدی Ø+سن‘ استاد امانت علی خان‘ عبدالرØ+من چغتائی‘ مشتاق اØ+مد یوسفی اور دیگر اہلِ فن Ú©ÛŒ طرØ+ اپنے فن Ú©Ùˆ پکانے والے آج بہت Ú©Ù… ہیں۔ غیر معیاری کام سے ہمیں پکانے والوں Ú©ÛŒ البتہ کوئی Ú©Ù…ÛŒ نہیں!